Kuch Batin Google ki - ایم بلال ایم
بہرحال 1998ء میں گوگل ایک ویب سرچ انجن کے طور پر شروع ہوا اور اس نے آغاز میں ہی ایک چھوٹے سرچ انجن ”گوٹو ڈاٹ کام“ کا آئیڈیا استعمال کیا۔ وہ آئیڈیا ”تلاش کی اصطلاحات کی فروخت“ تھا یعنی ان الفاظ کی فروخت جو صارفین سرچ انجن میں درج کر کے مواد تلاش کرتے ہیں۔ اس آئیڈیے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ مختلف ویب سائیٹس کسی خاص لفظ یا الفاظ کے تحت گوگل کو اشتہار دیتی ہیں اور جب کوئی ان الفاظ سے تلاش کرتا ہے تو نتائج کے شروع میں گوگل وہ اشتہار دیکھا دیتا ہے۔ اگر آپ نے غور کیا ہو تو عموماً تلاش کے نتائج کے شروع میں چند متعلقہ اشتہارات (Related Ads) ہوتے ہیں۔ شروع میں یہی اشتہارات گوگل کی آمدنی کا ذریعہ تھے۔ گو کہ اب کئی دوسرے ذرائع سے بھی گوگل کما رہا ہے مگر آج بھی یہ اور اس جیسے دیگر اشتہارات ہی گوگل کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں۔
جس طرح سمندر میں بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو نگل جاتی ہیں، کچھ ایسا ہی انٹرنیٹ کے سمندر میں بھی ہوتا آیا ہے۔ عموماً بڑی کمپنیاں اپنے سے چھوٹی کمپنیوں کو خریدنے کی کوشش کرتی ہیں اور بعض کو خرید بھی لیتی ہیں۔ گوگل نے بھی کچھ ایسا ہی کیا اور کئی کمپنیوں کو خریدا۔ جن میں قابل ذکر یہ ہیں۔ گوگل نے فروری 2003ء میں بلاگنگ کی سہولت مہیا کرنے والی ”بلاگر ڈاٹ کام“، مارچ 2003ء میں اشتہارات کی وصولی اور تشہیر کرنے والی ”اپلائیڈ سمنٹکس“، جولائی 2004ء میں تصویروں کے متعلقہ ”پکاسا“، اکتوبر 2004ء میں ارتھ ویو نامی سافٹ ویئر بنانے والی ”کی ہول“، اگست 2005ء میں سمارٹ فون کا آپریٹنگ سسٹم ”اینڈرائیڈ“ اور اکتوبر 2006ء میں مشہورِ زمانہ ”یوٹیوب“ کو خرید لیا۔ ابھی تک گوگل تقریباً 145 کمپنیاں یا ان کی مصنوعات کو خرید کر اپنے اندر ضم کر چکا ہے۔ آج کل سرچ انجن کے بعد گوگل کی مشہور سروسز زیادہ تر وہی ہیں جن کو کسی زمانے میں گوگل نے خریدا تھا۔ گو کہ گوگل انٹرنیٹ کا بادشاہ کہلاتا ہے مگر سوشل نیٹ ورک کے معاملے میں لاکھ کوششوں کے باوجود بھی دیگر کمپنیوں جیسے فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ کا مقابلہ نہیں کر سکا۔ پہلے آرکٹ پھر گوگل بز اور بعد میں گوگل پلس مارکیٹ میں آئے مگر پھر بھی اس معاملے میں گوگل دوسروں سے پیچھے ہی رہا۔
گوگل صارفین کی کئی قسم کی معلومات اکٹھی کرتا ہے۔ جس میں صارف کے کمپیوٹر اور موبائل وغیرہ کے ہارڈویئر، سافٹ ویئر، محل وقوع، صارف زیادہ تر کونسی ویب سائیٹ کھولتا اور تلاش کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ گوگل اس معلومات کو اکٹھا کرنے کا یہ جواز دیتا ہے کہ وہ اس سے راہنمائی لے کر اپنے صارفین کو بہتر سے بہتر سہولت فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ گوگل جی میل کی ای میلز بھی پڑھتا ہے۔ جب یہ بات عدالت تک پہنچی اور مثال کے طور پر کہا گیا کہ کوئی بھلا یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ اس کا خط راستے میں ہی ڈاکیا کھول کر پڑھے۔ یہ پرائیویسی کے خلاف ہے۔ اس کے جواب میں گوگل کا کہنا تھا کہ وہ ای میلز ڈاکیے کی حیثیت سے نہیں بلکہ آپ کے سیکرٹری کی حیثیت سے پڑھتا ہے تاکہ غیر ضروری ای میلز کو ردی میں پھینک سکے اور آپ کو بہتر سہولت فراہم کر سکے۔ انٹرنیٹ سے متعلقہ سہولیات فراہم کرنے والی دیگر کئی کمپنیوں کی طرح گوگل کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ وہ امریکہ کے لئے جاسوسی کرتا ہے اور امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی (NSA) کو صارفین کی معلومات فراہم کرتا ہے۔ یہ بات بھی عدالت میں پہنچی اور اس پر جج کا کہنا تھا ”امریکی عوام کو یہ جاننے کا حق حاصل نہیں کہ گوگل اور نیشنل سکیورٹی ایجنسی آپس میں کس قسم کا تعاون کرتے ہیں۔“ بہرحال جاسوسی کرنے والی بات کے متعلق حتمی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ صارفین کی معلومات تو واقعی اکٹھی کرتا ہے اور اس بارے میں گوگل کی ویب سائیٹ پر لکھا ہوا ہے، بلکہ جب بھی کوئی گوگل کی کسی بھی سہولت کا صارف بنتا ہے تو ”ٹرمز اینڈ کنڈیشن“ میں ایسی معلومات درج ہوتی ہیں اور پھر وہی صارف بن سکتا ہے جو اسے قبول کرتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارے ہاں لوگ ایسی معلومات کو نہیں پڑھتے اور جلدی میں قبول پر کلک کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔
ایک ویب سرچ انجن کے طور پر شروع ہونے والا گوگل آج ملٹی نیشنل کارپوریشن ہے۔ جو انٹرنیٹ سے متعلقہ بہت ساری سروسز فراہم کر رہا ہے، بلکہ ایک عام صارف کی ضرورت کی تقریباً تمام سہولیات مفت فراہم کرتا ہے۔ ویسے کئی سروسز کے معاملے میں گوگل کی حالت کافی پتلی ہے جیسے سوشل میڈیا۔ اگر ایسے معاملات میں گوگل نے جلد ہی کچھ نیا اور انوکھا کر کے نہ دکھایا تو پھر یہ ایک بڑی کمپنی تو رہے گا مگر اس کی بادشاہت کو زوال آ جائے گا۔ بعض کا خیال ہے کہ اس وقت گوگل کی بادشاہت کو شدید خطرہ ہے کیونکہ اس کا زور توڑنے کے لئے کئی ایک کمپنیاں متحد ہو چکی ہیں اور مل کر اپنی سروسز کا معیار بہتر بنا رہی ہیں۔ بہر حال دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔